قطعات
قطعات
پیشہ ِمرا شاعری نہ دعویٰ مجھ کو
ہاں شَرع کا البتہ ہے جُنْبہ مجھ کو
مولیٰ کی ثَنا میں حکمِ مولیٰ کا خلاف
لَوزِینہ میں سِیر تو نہ بھایا مجھ کو
دیگر
ہوں اپنے کلام سے نِہایَت مَحظوظ
بیجا سے ہے اَلْمِنَّۃ لِلّٰہ مَحفوظ
قرآن سے میں نے نعت گوئی سیکھی
یعنی رہے اَحکامِ شریعت مَلحوظ
دیگر
مَحصُور جَہانْدانی و عالی میں ہے
کیا شُبہ رضاؔ کی بے مثالی میں ہے
ہر شخص کو اِک وَصف میں ہوتا ہے کمال
بندے کو کمال بے کمالی میں ہے
دیگر
کس منھ سے کہوں رشکِ عَنادِل ہوں میں
شاعر ہوں فصیح بے مُماثِل ہوں میں
حَقّا کوئی صَنْعَت نہیں آتی مجھ کو
ہاں یہ ہے کہ نقصان میں کامل ہوں میں
دیگر
توشہ میں غم و اَشک کا ساماں بس ہے
اَفغانِ دلِ زار حُدی خواں بس ہے
رہبر کی رہِ نعت میں گر حاجت ہو
نقشِ قدمِ حضرتِ حَسّاں بس ہے
دیگر
ہر جا ہے بلندیِ فَلک کا مَذکور
شایَد ابھی دیکھے نہیں طَیْبَہ کے قصور
انسان کو انصاف کا بھی پاس رہے
گو دور کے ڈھول ہیں سُہانے مشہور
دیگر
کس درجہ ہے روشن تنِ محبوبِ اِلٰہ
جامہ سے عِیاں رنگِ بدن ہے وَ اللہ
کپڑے یہ نہیں میلے ہیں اس گل کے رضاؔ
فریاد کو آئی ہے سیاہیِ گناہ
دیگر
ہے جلوہ گَہِ نورِ اِلٰہی وہ رُو
قَوسَین کی مانِند ہیں دونوں اَبرو
آنکھیں یہ نہیں سبزۂ مُژگاں کے قریب
چرتے ہیں فضائے لامکاں میں آہُو
دیگر
مَعْدوم نہ تھا سایۂ شاہِ ثقلین
اس نور کی جلوہ گَہ تھی ذاتِ حسنین
تَمْثِیْل نے اس سایہ کے دو حصّے کیے
آدھے سے حَسن بنے ہیں آدھے سے حُسین
دیگر
دنیا میں ہر آفت سے بچانا مولیٰ
عُقبٰے میں نہ کچھ رَنج دکھانا مولیٰ
بیٹھوں جو درِ پاک پیمبر کے حضور
اِیمان پر اس وقت اٹھانا مولیٰ
دیگر
خالق کے کمال ہیں تجدد سے بَری
مخلوق نے مَحدود طبیعت پائی
بِالجملہ وُجود میں ہے اِک ذاتِ رسول
جس کی ہے ہمیشہ روز اَفزوں خوبی
دیگر
ہوں کر دو تو گَردوں کی بِنا گِر جائے
اَبرو جو کھچے تیغِ قضا کِر جائے
اے صَاحبِ قَوسَیْن بس اب رَد نہ کرے
سہمے ہووں سے تیرِ بلا پھر جائے
دیگر
نقصان نہ دے گا تجھے عِصیاں میرا
غُفران میں کچھ خرچ نہ ہو گا تیرا
جس سے تجھے نقصان نہیں کر دے معاف
جس میں تیرا کچھ خرچ نہیں دے مولیٰ
قطعہ
نہ مَرا نُوش زِ تحسِیں نہ مَرا نیش زِ طعن
نہ مَرا گُوش بمدحے نہ مَرا ہوش ذَمے
مَنَم و کُنْج خُمولی کہ نگنجد در وَے
جُز مَن و چند کتابے و دوات و قلمے
آتے رہے اَنبیا کَمَا قِیْلَ لَھُمْ
وَ الْخَاتَمُ حَقُّکُمْ کہ خاتم ہوئے تم
یعنی جو ہوا دفتر تَنْزِیْل تمَام
آخر میں ہوئی مہر کہ اَکْمَلْتُ لَکُمْ
٭ ٭ ٭
شب لحیَہ و شارِب ہے رُخِ رَوشن دن
گیسو و شب قَدْر و براتِ مومن
مژگاں کی صفیں چار۴ ہیں دو۲ اَبرو ہیں
وَ الْفَجْر کے پہلو میں لَیَالٍ عَشْرٍ
٭ ٭ ٭
اللہ کی سر تا بقدم شان ہیں یہ
اِن سا نہیں اِنسان وہ اِنسان ہیں یہ
قرآن تو اِیمان بتاتا ہے انھیں
اِیمان یہ کہتا ہے مری جان ہیں یہ
٭ ٭ ٭
بوسہ گہِ اَصحاب وہ مہر سامی
وہ شانۂ چپ میں اُس کی عنبر فامی
یہ طرفہ کہ ہے کعبۂ جان و دِل میں
سَنگِ اَسود نصیب رکنِ شامی
٭ ٭ ٭
کعبہ سے اگر تربتِ شہ فاضل ہے
کیوں بائیں طرف اُس کے لئے منزل ہے
اس فکر میں جو دل کی طرف دھیان گیا
سمجھا کہ وہ جسم ہے یہ مرقد دل ہے
٭ ٭ ٭
تم جو چاہو تو قِسمَت کی مصیبت ٹل جائے
کیوں کر کہوں ساعت سے قیامَت ٹل جائے
لِلّٰہ اُٹھا دو رُخِ روشن سے نقاب
مولیٰ مِری آئی ہوئی شامَت ٹل جائے
٭ ٭ ٭
یاں شبہ شبیہہ کا گزرنا کیسا!
بے مثل کی تمثال سنورنا کیسا
ان کا متعلق ہے ترقی پہ مُدام
تصویر کا پھر کہیے اُترنا کیسا
٭ ٭ ٭
یہ شہ کی تواضع کا تقاضا ہی نہیں
تصویر کِھنچے ان کو گوارا ہی نہیں
معنی ہیں یہ مانی کہ کرم کیا مانے
کھنچنا تو یہاں کسی سے ٹھہرا ہی نہیں